Listen while working
Getting your Trinity Audio player ready...
|
اذان کے لغوی معنی ہیں، خبردار کرنا، اطلاع دینا اور اعلان کرنا۔ شریعت کی اصطلاح میں اذان سے مراد وہ مخصوص کلمات ہیں جن کے ذریعے لوگوں کو اطلاع دی جاتی ہے کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے۔ |
وَاِذَا نَادَيْتُمْ اِلَی الصَّلٰوةِ اور جب تم نماز کے لیے( لوگوں کو بہ صور تِ اذان) پکارتے ہو۔ 5:58 القرآن |
عام طور پر لوگ اذان کے دوران اپنی گفتگو میں مصروف رہتے ہیں اور اس عظیم ثواب سے محروم ہو اتے جو اذان کے سننے اور اس کے جواب میں اللہ تعالہ نے رکھی ہے۔ |
ہم سے محمود بن غیلان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالرزاق بن ہمام نے، کہا کہ ہمیں عبدالملک ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے نافع نے خبر دی کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے تھے کہ جب مسلمان (ہجرت کر کے) مدینہ پہنچے تو وقت مقرر کر کے نماز کے لیے آتے تھے۔ اس کے لیے اذان نہیں دی جاتی تھی۔ ایک دن اس بارے میں مشورہ ہوا۔ کسی نے کہا نصاریٰ کی طرح ایک گھنٹہ لے لیا جائے اور کسی نے کہا کہ یہودیوں کی طرح نرسنگا (بگل بنا لو، اس کو پھونک دیا کرو) لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کسی شخص کو کیوں نہ بھیج دیا جائے جو نماز کے لیے پکار دیا کرے۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے (اسی رائے کو پسند فرمایا اور بلال سے) فرمایا کہ بلال! اٹھ اور نماز کے لیے اذان دے۔ صحيح البخاري: 604 |
ابو عمیر بن انس اپنے ایک انصاری چچا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ فکرمند ہوئے کہ لوگوں کو کس طرح نماز کے لیے اکٹھا کیا جائے؟ آپ ﷺ سے عرض کیا گیا کہ نماز کا وقت ہونے پر ایک جھنڈا نصب کر دیجئیے، جسے دیکھ کر ایک شخص دوسرے کو باخبر کر دے، آپ ﷺ کو یہ رائے پسند نہ آئی۔ پھر آپ ﷺ سے ایک بگل ۱؎ کا ذکر کیا گیا، زیاد کی روایت میں ہے: یہود کے بگل (کا ذکر کیا گیا) تو یہ تجویز بھی آپ ﷺ کو پسند نہیں آئی، آپ ﷺ نے فرمایا: “اس میں یہودیوں کی مشابہت ہے”۔ پھر آپ ﷺ سے ناقوس کا ذکر کیا گیا، آپ ﷺ نے فرمایا:”اس میں نصرانیوں کی مشابہت ہے”۔ پھر عبداللہ بن زید بن عبدربہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے پاس سے لوٹے، وہ بھی (اس مسئلہ میں) رسول اللہ ﷺ کی طرح فکرمند تھے، چنانچہ انہیں خواب میں اذان کا طریقہ بتایا گیا۔ عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: وہ صبح تڑکے ہی رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، آپ کو اس خواب کی خبر دی اور آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں کچھ سو رہا تھا اور کچھ جاگ رہا تھا کہ اتنے میں ایک شخص (خواب میں) میرے پاس آیا اور اس نے مجھے اذان سکھائی، راوی کہتے ہیں: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اس سے پہلے یہ خواب دیکھ چکے تھے لیکن وہ اسے بیس دن تک چھپائے رہے، پھر انہوں نے اسے نبی اکرم ﷺ کو بتایا تو آپ نے ان سے فرمایا: “تم کو کس چیز نے اسے بتانے سے روکا؟”، انہوں نے کہا: چونکہ مجھ سے پہلے عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے اسے آپ سے بیان کر دیا اس لیے مجھے شرم آ رہی تھی ۲؎، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “بلال! اٹھو اور جیسے عبداللہ بن زید تم کو کرنے کو کہیں اسی طرح کرو”، چنانچہ بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی۳؎۔ ابوبشر کہتے ہیں کہ مجھ سے ابوعمیر نے بیان کیا کہ انصار سمجھتے تھے کہ اگر عبداللہ بن زید ان دنوں بیمار نہ ہوتے تو رسول اللہ ﷺ ان ہی کو مؤذن بناتے۔ تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۵۶۰۴) (حسن) |
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے ابن شہاب زہری سے خبر دی، انہوں نے عطاء بن یزید لیثی سے، انہوں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے کہ جب تم اذان سنو تو جس طرح مؤذن کہتا ہے اسی طرح تم بھی کہو۔ صحيح البخاري: 611 |
یحییٰ نے کہا کہ مجھ سے میرے بعض بھائیوں نے حدیث بیان کی کہ جب مؤذن نے “حى على الصلاة” کہا تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے “لا حول ولا قوة إلا بالله” کہا اور کہنے لگے کہ ہم نے نبی کریم ﷺ سے ایسا ہی کہتے سنا ہے۔ صحيح البخاري: 613 |
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:” جب مؤذن “اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ” کہے تو سننے والا بھی یہی الفاظ دہرائے اور جب وہ “أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ” اور “أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ”کہے تو سننے والا بھی یہی الفاظ کہے۔ اور جب مؤذن “حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ” کہے تو سننے والا “لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ”کہے۔ پھر مؤذن جب”حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ”کہے تو سننے والے کو “لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ” کہنا چاہئیے۔ اس کے بعد مؤذن جب “اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ” اور”لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ” کہے تو سننے والے کو بھی یہی الفاظ دھرانے چاہئیں اور جب سننے والے نے اس طرح خلوص اور دل سے یقین رکھ کر کہا تو وہ جنت میں داخل ہوا۔“(بشرطیکہ ارکان اسلام کا بھی پابند ہو)۔ صحيح مسلم: 850 |
ہم سے علی بن عیاش ہمدانی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شعیب بن ابی حمزہ نے بیان کیا، انہوں نے محمد بن المنکدر سے بیان کیا، انہوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اذان سن کر یہ کہے اللَّهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ وَالصَّلَاةِ الْقَائِمَةِ آتِ مُحَمَّدًا الْوَسِيلَةَ وَالْفَضِيلَةَ وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِي وَعَدْتَهُ، حَلَّتْ لَهُ شَفَاعَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ”. اسے قیامت کے دن میری شفاعت ملے گی۔ صحيح البخاري: 614 |
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے: ”جب مؤذن کی اذان سنو تو تم وہی کہو جو مؤذن کہتا ہے پھر مجھ پر درود پڑھو کیونکہ جو کوئی مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر اپنی دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے میرے لئے وسیلہ مانگو کیونکہ وسیلہ دراصل جنت میں ایک مقام ہے، جو اللہ کے بندوں میں سے ایک بندہ کو دیا جائے گا اور مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہی ہوں گا اور جو کوئی میرے لیے وسیلہ (مقام محمود) طلب کرے گا اس کے لیے میری شفاعت واجب ہو جائے گی۔ “ صحيح مسلم: 849 |
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد بیان کیا کہ مؤذن کی اذان سن کر جس نے یہ کہا: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ رَضِيتُ بِاللَّهِ رَبًّا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا وَبِالْإِسْلَامِ میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی اور دوسرا معبود نہیں ہے، اللہ تعالیٰ یکتا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ میں اللہ کی ربوبیت اور محمد ﷺ کی رسالت سے مسرور خوش ہوں اور میں نے مذہب اسلام کو قبول کر لیا ہے تو ایسے شخص کے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔ “ ابن رمح کی روایت میں «أَشْهَدُ» کی بجائے «أَنَا أَشْهَدُ» ہے معنی میں و مفہوم ایک ہی ہے۔ صحيح مسلم: 851 |